پٹن کلاں
ابیٹ آباد سے مشرق کی جانب تقریباََ 40کلومیٹر پر واقع پہاڑوں اور سبزہ زار میں گھِرا قصبہ پٹن کلاں آباد ہے۔
قدرتی حسن سے مالا مال اس علاقے کی آبادی تقریباََ 28ہزار ہے۔آبادی کا معیشت کا زیادہ تر انحصار کھیتی باڑی پر ہے۔جو کہ ابھی تک روائتی انداز میں بیل کے ذریعے ہل چلا کرہی کی جاتی ہے۔جبکہ ٹریکٹر اور جدید مشینری کا رجحان موجودہ دور میں بڑھتا جا رہا ہے۔کھیتی باڑی کے علاوہ سرکاری ملازمتیں سکولوں اور ہسپتالوں تک ہی محدود ہیں۔یہاں تقریباََ دو ہائی سکول اور تین سے چار پرائمری سکولز ہیں۔اور ہندکو زبان کو زریعہ ہے گفت و شنید استعمال کیا جاتا ہے۔یہاں کی اکثریتی قوموں میں ،قریشی،عباسی ،اعوان اور دیگر ہیں۔
یہاں کے لوگ نہایت شائستہ اور خوش اخلاق ہیں۔یہاں کا روائتی رقص اپنا الگ ہی مقام رکھتا ہے۔
دلکش آبشاریںِ ،خوبصورت جھرنیں جہاں دل کو موہ لیتی ہیں وہیں علاقے کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی نہر ننھی وادی
کو کاٹتی ہوئی دریائے کُنہار میں جا گرتی ہے۔
patan kalan canal |
کو کاٹتی ہوئی دریائے کُنہار میں جا گرتی ہے۔
سطح سمندر سے تقریباََ سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقع گاوں پٹن کلاں پہنچنے کے لیے ایبٹ آباد سے مشرق کی جانب ٹھندیانی روڈ پر 40کلومیٹر کی پہاڑی مسافت طہ کرنے،یا اسلام آباد سے مظفر آباد آزاد کشمیر کی طرف جانے والی ہائی وے سے دریائے جہلم کوسر کر تے راڑہ پل کے ذریعے ایگزیٹ لینا پڑتا ہے۔دریائے جہلم پر واقع یہ پل آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ کی سرحد ہے۔
تاریخ:۔
تقسیم سے قبل اس علاقے میں ہندو بھی جو کہ قیام پاکستان کے بعد آہستہ آہستہ دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے۔
۲۰۰۵ء کے زلزلہ میں اس علاقے کو شدید نقصان پہنچا ۔اور اس کی بحالی کے اقامات گزشتہ برسوں تک جاری رہے۔
اسکے شمال مغرب میں معروف سیاحتی مقام ٹھندیانی اور ایبٹ آباد ہیں۔جبکہ جنوب مشرق میں آزاد کشمیر ہے۔جو کہ سرکل
بکوٹ یا گلیات کا سب سے بڑا اور خوبصورت گاوں ہے۔
بکوٹ یا گلیات کا سب سے بڑا اور خوبصورت گاوں ہے۔
نمل |
یونین کونسل پٹن کلان کے شمال میں یوسی ککمنگ،بوئی، مغرب میں ٹھنڈیانی یوسی کٹھوال،اور جنوب میں بیرن گلی اور
نمبل ہیں۔یوسی کے موجودہ لوکل ممبر کونسل عبدالستار قریشی ، اور وائس چیئرمین محمد خورشید ہیں۔
آب ہوا:۔
سردیوں کے موسم میں اس علاقے میں جہاں برفباری اپنے دلکش مناظر پیش کرتی ہے وہیں درجہ حرارت سفرِ سے بھی نیچے گھر جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر لوگ عارضی طور پر شہری علاقوں میں رہائیش پذیر ہو جاتے ہیں جبکہ گرمیوں اور بہار کا موسم اس علاقے کے لیے انتہائی دلکش اور حسین ہوتا ہے۔حتہ کہ جون اور اگست کے مہینوں میں بھی زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 20 تک ہی جاتا ہے۔گویا یہاں کبھی گرمی آتی ہی نہیں۔
قدرتی حسن اور پر سکون فزا سے مالامال اس علاقے سے سیاحوں کی بڑی تعداد نا آشنا ہے۔
0 comments:
Post a Comment