Find us on social Media

Tuesday, 31 July 2018

The Warrior Lady Who Changed the World , but did various Marriages





Amina (Aminatu 1610) was a Hausa warrior queen of Zazzau (now Zaria), in what is now in the north-west region of Nigeria. She is the subject of many legends, but is believed by historians to have been a real ruler. There are controversies among scholars as to the era of her reign; one school placing her in the mid-15th century, and a second placing her reign in the mid to late 16th century.

According to history when ever she fought one battle and she marry with a man and after passing one night she kill that man.This was very Stunningly.
Share:

Wednesday, 25 July 2018

How the dam Collapsed in Loas exactly - Footage, and analysis





Hundreds of people are missing after a hydroelectric dam collapsed in southern Laos, destroying thousands of homes and leaving an unknown number of dead.



5 billion cubic metres of water – the equivalent of 2m Olympic swimming pools – swept through the surrounding countryside after the accident at the Xepian-Xe Nam Noy hydropower dam, which is still under construction in south-eastern Attapeu province.



The dam collapsed at 8 pm local time (13:00 BST) on Monday, . The neighbouring villages of Yai Thae, Hinlad, Mai, Thasengchan, Tha Hin and Samong bore the brunt of flooding, which has reportedly destroyed thousands of homes.



Officials brought in boats to try to evacuate victims in San Sai district who were left stranded by the water. Aerial footage showed the whole region under muddy water, with only roofs and treetops visible
Share:

Tuesday, 24 July 2018

Real Pros and Cons of Kalabagh Dam, Why not ? Why Yes ?





کالاباغ ڈیم یا کالاباغ بند حکومت پاکستان کا پانی کو ذخیرہ کر کے بجلی کی پیداوار و زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک بڑا منصوبہ تھا جو تاحال متنازع ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں ہو سکا۔ اس منصوبہ کے لیے منتخب کیا گیا مقام کالا باغ تھا جو ضلع میانوالی میں واقع ہے۔ ضلع میانوالی صوبہ پنجاب کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ یاد رہے کہ ضلع میانوالی پہلے صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ تھا جسے ایک تنازع کے بعد پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔

کالاباغ ڈیم منصوبہ کا آغاز صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے کیا تھا۔لیکن صوبہ سندھ ،خیبر پختون خواہ،اور پلوچستان نے اس وقت کچھ اعتراضات اٹھائے،پر جنرل محمد ضیاء الحق کی مشاورت ک بعد یہ تہ ہوا کہ کالاباغ ڈیم سے حاصل ہونے والا پانی 37%پنجاب ،33%سندھ،14%خیبر پختون خواہ،اور12%بلوچستان کو دیا جائے گا۔جس پر چاروں فریق متفق ہو گئے۔اس منصوبے پر کام 1993 تک ہنگامی بنیادوں پر مکمل ہونا تھا۔جو کہ صدر ضیاء الحق کی شہادت کے بعد ابھی تک تاخیر کا شکار ہے جسکی وجوہات ہم آپکو بتانے جا رہے ہیں۔

کالاباغ بند کا منصوبہ اس کی تیاری کے مراحل سے ہی متنازع رہا ہے۔ دسمبر 2005ء میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ، “وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ بند تعمیر کر کے رہیں گے“۔ جبکہ 26 مئی 2008ء کو وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے ایک اخباری بیان میں کہا، “کالاباغ بند کبھی تعمیر نہ کیا جائے گا“ انھوں نے مزید کہا، “صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ اور دوسرے متعلقہ فریقین کی مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ قابل عمل نہیں رہا۔

کالاباغ بند کی تعمیر کے منصوبے کے پیش ہوتے ہی پاکستان کے چاروں صوبوں خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو تلخی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس منصوبہ کی تعمیر کے حق میں صرف صوبہ پنجاب ہے جو تمام چاروں صوبوں میں سیاسی و معاشی لحاظ سے انتہائی مستحکم ہے۔ مرکزی حکومت کی تشکیل بھی عام طور پر صوبہ پنجاب کی سیاست کے گرد گھومتی ہے۔ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں نے اس منصوبہ کی تعمیر کے خلاف صوبائی اسمبلیوں میں متفقہ قراردادیں منظور کیں اور سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ تب سے یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا رہا اور اس پر کوئی بھی تعمیری کام ممکن نہ ہو سکا۔

سیاسی و علاقائی مخالفتوں کے علاوہ ایک بڑی رکاوٹ جو اس منصوبہ کی راہ میں حائل ہے وہ عالمی قانون برائے تقسیم پانی کی ہے، جس کے مطابق کسی بھی دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق کا یہ نہ صرف قانونی بلکہ قدرتی حق ہے کہ پانی کی ترسیل اس تک ممکن رہے۔ اسی وجہ سے دریائے سندھ کے آخری حصہ پر موجود فریق یعنی صوبہ سندھ کی مرضی کے بغیر اس منصوبہ کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ البتہ اس قانون میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق دریا کے پانی کو استعمال میں نہیں لاتا تو بند کی تعمیر ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

گو، اس منصوبہ سے حاصل ہونے والے فوائد میں بجلی کی پیداوار اور پانی کا ذخیرہ کرنا، جس سے زرعی زمین سیراب ہو سکتی ہے شامل ہے مگر اس کے ماحول پر بھی کئی مضر اثرات ہیں، جو کسی بھی ایسے ہی بڑے منصوبے کی وجہ سے ماحول کو لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ منصوبہ ایک بڑی آبادی کی ہجرت کا بھی سبب بنے گا۔ اس منصوبہ کے مخالفین نے حاصل ہونے والے فوائد کی نسبت اس کے نقصانات کو واضع طور پر اجاگر کیا ہے جس کی وجہ سے تینوں مخالف صوبوں میں عوامی رائے عامہ اس منصوبہ کی تعمیر کے حوالے سے ہموار نہیں ہے۔ عالمی قانون برائے تقسیم پانی، عوامی رائے عامہ اور فریقین کا نقطہ نظر وہ چند عوامل ہیں جن کے سبب 1984ء سے اب تک اس منصوبہ کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔

اس حوالے سے اعتراضات اور اس منصوبہ پر تحفظات کو سمجھنے کے لیے صوبوں کے نقطہ نظر کا مطالعہ سودمند رہے گا۔

صوبہ پنجاب کا نقطہ نظر:

پنجاب جس کی بڑھتی آبادی، صنعت و زراعت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی درکار ہے، کالاباغ بند کا منصوبہ بلاشبہ اس کی ان ضروریات کو نہ صرف پورا کر سکتا ہے بلکہ یہ پورے ملک کے لیے سستی بجلی کا ایک مستقل ذریعہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

پنجاب میں ایک عام رائے یہ ہے کہ بحیرہ عرب میں دریائے سندھ کا شامل ہونا دراصل پانی کے ذخیرے کا “ضائع“ ہو جانا ہے۔ یہ پانی ملک میں ان زمینوں کو سیراب کر سکتا ہے جو پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بنجر ہیں۔

پنجاب کے نقطہ نظر میں کالاباغ بند کے علاوہ بھی دو بڑے منصوبے بھاشا بند اور سکر دو بند بھی تعمیر کیے جانے چاہیے۔ کالاباغ بند چونکہ ان تینوں منصوبوں میں بہتر وسائل کی دستیابی کی وجہ سے قابل عمل ہے تو اسے سب سے پہلے تعمیر ہونا چاہیے۔ بہاولپور اور بہاول نگر کے علاقے کالاباغ بند کے ذخیرے سے سب سے زیادہ مستفید ہوں گے۔

پنجاب میں کالاباغ بند کی تعمیر کے حق میں کئی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں، بلکہ وقتاً فوقتاً عوامی سطح پر ایسے مظاہرے نقض امن کی وجہ بھی بنے ہیں۔ 1960ء کے اوائل میں بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاہدوں پر پاکستان نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت ستلج اور بیاس کے حقوق بھارت کو دے دیے گئے۔ تب سے بھارت دریائے راوی، ستلج اور بیاس کو صرف سیلابی پانی کے اخراج کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے معاہدے کی رو سے ان دریاؤں پر بند کی تعمیر کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان کی وفاقی حکومت ان میں سے کسی بھی منصوبے پر واضع کامیابی حاصل نہیں کر سکی جس کے نتیجے میں صوبہ پنجاب کو فراہم کیا جانے والا پانی صرف تین دریاؤں تک محدود ہو گیا۔ پنجاب کے نقطہ نظر میں کالا باغ ڈیم دو دریاؤں یعنی دریائے ستلج اور بیاس کی بھارت کو حوالگی کے نتیجے میں ہونے والے صوبائی نقصانات کا بہتر نعم البدل ثابت ہو سکتا ہے،یہ صوبائی نقصان بلاشبہ وفاقی سطح پر ہونے والی زیادتی ہے، جس کے ذمہ دار دوسرے صوبے بھی ہیں۔

صوبہ پنجاب کی اس منصوبہ کی حمایت دراصل اس حقیقت سے بھی جڑی ہوئی ہے کہ کالا باغ بند سے تقریباً 3600 میگا واٹ بجلی حاصل ہو سکتی ہے جو پاکستان کی توانائی کے مسائل ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہو گی کیونکہ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی توانائی کی نسبت انتہائی سستی ہے۔

پنجاب نے اس منصوبہ پر اپنے موقف میں لچکداری کا مظاہرہ کیا ہے اور کالا باغ منصوبہ سے حاصل ہونے والی وفاقی سطح پر آمدنی سے حصہ وصول نہ کرنے کا اعلان کیا لیکن پھر بھی دوسرے صوبوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ بدقسمتی سے پورے پاکستان میں ایک تکنیکی مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا گیا۔

صوبہ سندھ کا نقطہ نظر:

صوبہ سندھ جس نے کالا باغ منصوبے کی سب سے پہلے مخالفت کی. اس منصوبہ سے متاثر ہونے والا اہم فریق ہے۔ گو صوبہ سندھ اس منصوبہ کی کٹر مخالفت کرتا ہے لیکن اس کا نقطہ نظر “پنجاب کے ہاتھوں پانی کی چوری“ کے نظریہ پر قائم ہے۔ اس نظریہ کی انتہائی حمایت صوبہ سندھ میں دیکھنے میں آتی ہے لیکن کسی بھی طرح سے اس چوری کو ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔ صوبہ سندھ دراصل تاریخی لحاظ سے دریائے سندھ پر اپنا حق تسلیم کرتا ہے اور عوامی رائے میں دریائے سندھ پر صوبے کا حق تاریخ اور اس کے نام سے عیاں ہے۔ تربیلہ بند اور منگلا بند کی تعمیر کو صوبہ سندھ دراصل پنجاب کے ہاتھوں پانی چوری کا نقطہ سمجھتے ہوئے اب کالا باغ بند کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کرتا آیا ہے، جس کی قیمت سندھ کی زرعی زمین کی تباہی کی صورت میں ادا کرنی پڑی ہے۔ اس کلیدی نقطہ کے علاوہ صوبہ سندھ اس منصوبہ کی مخالفت میں مندرجہ زیل نکات پیش کرتا ہے،

صوبہ سندھ کے مطابق کالا باغ بند میں ذخیرہ ہونے والا پانی صوبہ پنجاب اور صوبہ سرحد کی زرعی زمینوں کو سیراب کرے گا جبکہ یہی پانی سندھ کی زرعی زمینوں کو سیراب کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ عالمی قانون برائے تقسیم پانی کی رو سے دریائے سندھ پر صوبہ سندھ کا حق تسلیم کیا جانا چاہیے۔

صوبہ سندھ کے ساحلی علاقہ میں دریائے سندھ کا بہنا انتہائی ضروری ہے تاکہ یہ دریا سمندری پانی کو ساحل کی طرف بڑھنے سے روک سکے۔ اگر دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوتی ہے تو یہ سندھ کے ساحل اور اس پر موجود جنگلات اور زرعی زمینوں کو صحرا میں تبدیل کر دے گا۔ یہ نہ صرف ماحول کے لیے خطرناک ہے بلکہ یہ ماحولیاتی رو سے انتہائی نامناسب بھی ہے۔

تربیلہ بند اور منگلا بند کی تعمیر کے بعد صوبہ سندھ میں پانی کی کمی واقع ہوئی ہے جس کا ثبوت کوٹری بیراج اور حیدر آباد میں دریائے سندھ کی موجودہ حالت کا ماضی سے موازنہ کر کے لگایا جاسکتا ہے۔ صوبہ سندھ کو خدشہ ہے کہ دریائے سندھ پر ایک اور بند کی تعمیر کے نتائج صوبے میں انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔

کالا باغ بند زلزلوں کے لحاظ سے انتہائی خطرناک جگہ پر واقع ہو گا جس کے قریب انتہائی خطرناک فالٹ لائنیں موجود ہیں اور یہیں زیر زمین دراڑیں ذخیرہ کیے گئے پانی کو سمو لیں گی اور بہتے ہوئے دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ کم ہو جائے گا جو کسی صورت میں بھی کسی فریق کے لیے سودمند نہیں ہے

دریائے سندھ پر تعمیر کیے جانے والے بند پہلے سے ہی کئی ماحولیاتی مسائل کا سبب بن رہے ہیں، جن کو ابھی تک وفاقی و صوبائی سطح پر زیر بحث نہیں لایا گیا ہے۔ کالاباغ بند میں جمع ہونے والی ریت کا مسئلہ ماحولیاتی مسائل میں نہ صرف اضافہ کرے گا بلکہ یہ منچھر جھیل اور ہالیجی جھیل میں پانی کی عدم دستیابی کا بھی سبب بنے گا، جس سے آبی حیات کو انتہائی خطرات درپیش ہوں گے۔

گو سابق صدر پرویز مشرف، سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اور دوسرے قومی و صوبائی راہنماؤں نے اس بات کا یقین دلایا ہے کہ صوبہ سندھ کو پانی میں پورا حصہ ملے گا مگر یہ یقین دہانیاں صوبہ سندھ کے لیے کافی نہیں ہیں۔ صوبہ سندھ یہ سمجھتا ہے کہ 1991ء میں ہونے والے دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے معاہدے جس کی تصدیق آئینی کمیٹی نے کی تھی، اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا، یعنی صوبہ پنجاب دراصل دریائے سندھ کے پانی کی چوری کا مرتکب ہوا ہے۔

کالا باغ بند بارے صوبہ سندھ میں عوامی رائے انتہائی ناہموار ہے۔ صوبہ سندھ کی قوم پرست سیاسی جماعتیں اور پارلیمانی سیاسی جماعتیں بشمول متحدہ قومی موومنٹ اور حکمران جماعت متفقہ طور پر اس منصوبہ کی مخالفت کرتی ہیں۔ اُن جماعتوں کا وفاق سے مطالبہ ہے کہ اس صورت حال میں کالا باغ بند کی تعمیر بارے اپنی رائے پر نظر ثانی کرے کیونکہ یہ صوبہ سندھ میں نقض امن اور وفاق سے علیحدگی کا سبب بن سکتا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کا نقطہ نظر:

صوبہ خیبر پختونخوا کے کالا باغ بند پر دو بڑے تحفظات ہیں،

گو کالا باغ بند کا ذخیرہ صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع ہو گا، لیکن بجلی پیدا کرنے والےٹربائن اور تعمیرات صوبائی سرحد کے باہر صوبہ پنجاب میں واقع ہوں گی۔ صوبہ پنجاب وفاق سے پیدا ہونے والی بجلی پر رائلٹی کا حقدار تصور ہو گا۔ اسی اعتراض کو رفع کرنے کے لیے دراصل صوبہ پنجاب نے وفاقی رائلٹی سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ صوبہ خیبر پختونخوا نے بہرحال اس امر کا اظہار کیا ہے کہ صوبہ سرحد کو وفاقی رائلٹی میں حصہ نہ ملنا دراصل زیادتی ہو گی کیونکہ پانی کا ذخیرہ صوبہ سرحد کی زمین پر واقع ہے اور یہ اس کے لیے کئی مسائل کا سبب بھی بنے گا۔

ضلع نوشہرہ کا بڑا حصہ اور اس کے مضافاتی علاقہ پہلے کالا باغ بند کی تعمیر کے دوران زیر آب آئے گا اور بعد میں ریت کے جمع ہونے سے ایک بڑا علاقہ بنجر ہو جائے گا۔ ایسے ہی حالات تربیلا بند کی تعمیر کے بعد ضلع صوابی اور ضلع ہری پور میں دیکھنے کو ملے تھے۔ اس کے علاوہ جب کالا باغ بند کی تعمیر مکمل ہو جائے گی تو اس میں پانی ذخیرہ کرنے کے بعد شہروں سے پانی کی سطح تقریباً 200 میٹر بلند ہو جائے گی۔ یہ ہمہ وقت سیلابوں اور شہری علاقوں کے زیر آب آنے کا خطرہ ہے جو صوبہ خیبر پختونخوا میں انتظامی، وسائلی اور معاشی مسائل کھڑا کر سکتا ہے۔ یہ مسائل البتہ بڑے پیمانے پر پانی کی نہریں اور ٹیوب ویل کھود کر حل کیے جا سکتے ہیں جن کا کالا باغ بند کے تعمیری منصوبہ میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔

صوبہ بلوچستان کا نقطہ نظر

گو صوبہ بلوچستان کالا باغ بند کی تعمیر سے متاثر نہیں ہوتا مگر کئی قوم پرست سردار اس منصوبہ کی تعمیر کو صوبہ پنجاب کی چھوٹے صوبوں سے کی گئی ایک اور زیادتی تصور کرتے ہیں۔ اس منصوبہ کی مخالفت سے صوبہ بلوچستان دراصل غریب اور چھوٹے صوبوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی نشان دہی کرنا چاہتا ہے۔ حقیقت میں کالا باغ بند کی تعمیر سے صوبہ بلوچستان کو کچھی نہر (کچھی کینال) کی مدد سے اپنے حصے کے پانی کے علاوہ اضافی پانی بھی دستیاب ہو سکے گا۔

تجزیہ:   

تجزیہ کار کالا باغ بند کی تعمیر کے حوالے سے اہمیت اس بات کو دیتے ہیں کہ یہ منصوبہ دراصل پنجاب اور باقی تین صوبوں کے درمیان عدم اعتماد کے کا سبب بنے گا۔

تمام پاکستانی اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہے اور اس بارے جلد ہی کوئی مستقل حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اگر کالا باغ منصوبہ پر آج سے ہی کام شروع کر بھی دیا جائے تب بھی اسے مکمل اور فعال ہونے میں کم از کم آٹھ سال کا عرصہ درکار ہے، تب تک پانی کی دستیابی بارے حالات اور بھی خراب ہو چکے ہوں گے۔ تجزیہ کار اور تکنیکی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اتنے بڑے منصوبے پر عمل درآمد کی بجائے کئی چھوٹے بند، بیراج اور نہریں تعمیر کی جانی چاہیے۔ اس سے نہ صرف دوسرے صوبوں کے تحفظات بھی دور ہوں گے بلکہ یہ آبی، ماحولیاتی اور زرعی وسائل کو محفوظ بنانے کے لیے بہترین طریقہ بھی ہے، جس کی واضع مثال پنجاب اور سندھ میں نہری نظام کی شکل میں موجود ہے۔

حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ہنگامی بنیادوں پر کالاباغ ڈیم سمیت کئی ڈیموں کی تعمیر پر کام شروع کروانے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر آئندہ کئی برسوں تک ڈیموں کی تعمیر پر کام نہ کیا گیا تو پاکستان میں خشک سائلی آسکتی ہے۔

واپڈا جو پاکستان میں بجلی اور توانائی کا وفاقی ادارہ ہے کئی سالوں سے کالا باغ بند بارے شماریاتی اعداد و شمار میں تبدیلیاں کرتا آیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار پر پاکستان کے کسی حصے میں کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت پاکستان نے اس ضمن میں ایک تکنیکی کمیٹی اے ۔ این ۔ جی عباسی کی سربراہی میں تشکیل دی۔ اس کمیٹی کا مقصد کالا باغ بند کے منصوبے کے تکنیکی فوائد و نقصانات کا جائزہ لینا تھا۔ اس کمیٹی نے چار جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ میں واضع طور پر رائے دی کہ بھاشا بند اور کٹزرہ بند کی تعمیر پانی کے ذخائر بارے حالات خراب ہونے سے پہلے تعمیر کیے جانے چاہیے اور کالا باغ منصوبہ ملکی مفاد میں فی الحال پس پشت ڈال دینا مفید ہو گا۔ اس رپورٹ کی روشنی میں کالا باغ بند اور بھاشا بند دراصل انتہائی موزوں منصوبہ جات ہیں اور ان کی تعمیر مکمل کی جانی چاہیے۔ رپورٹ کے اس حصے پر کئی گھمبیر عوامی و سیاسی مسائل کے کھڑے ہونے کا قوی امکان ہے۔



Share:

Thursday, 19 July 2018

Population of Sikh Community in Peshawar

Share:

Sunday, 8 July 2018

This is why tourists want to boycott Murree




Thousands of tourists across the Pakistan and from the world are going Murree even in Summer and in winter during snowfall to enjoy their holidays with families ,friends ,class mates  colleagues.

it was some incident happened last year that, some of tourists claimed that they were insulted and beaten by some locals in Murree.After that some people ran a campaign to boycott Murree as a tourists place.In the start of this year this type of incident happened in Murree  to the tourists.Tourists are saying that the locals belong to Murree are not Hospitable now.They got arrogant as lot of people want to go there.So we are boycotting Murree to go there.Here is a news report of private channel 7 News you can see what is happening. An Agent is asking 300 PKR for One night vehicle parking.

Pak Tour Productions

Graphical & visual content owner

7 Newspk

https://www.youtube.com/channel/UCHnwah__SNoZERotFo3wbjg
Share:

Saturday, 7 July 2018

پٹن کلاں ٹھنڈیانی ایبٹ آباد ، ایک صیاحتی مقام



پٹن کلاں 


ابیٹ آباد سے مشرق کی جانب تقریباََ 40کلومیٹر پر واقع پہاڑوں اور سبزہ زار میں گھِرا قصبہ پٹن کلاں آباد ہے۔
قدرتی حسن سے مالا مال اس علاقے کی آبادی تقریباََ 28ہزار ہے۔آبادی کا معیشت کا زیادہ تر انحصار کھیتی باڑی پر ہے۔جو کہ ابھی تک روائتی انداز میں بیل کے ذریعے ہل چلا کرہی کی جاتی ہے۔جبکہ ٹریکٹر اور جدید مشینری کا رجحان موجودہ دور میں بڑھتا جا رہا ہے۔کھیتی باڑی کے علاوہ سرکاری ملازمتیں سکولوں اور ہسپتالوں تک ہی محدود ہیں۔یہاں تقریباََ دو ہائی سکول اور تین سے چار پرائمری سکولز ہیں۔اور ہندکو زبان کو زریعہ ہے گفت و شنید استعمال کیا جاتا ہے۔یہاں کی اکثریتی قوموں میں ،قریشی،عباسی ،اعوان اور دیگر ہیں۔
یہاں کے لوگ نہایت شائستہ اور خوش اخلاق ہیں۔یہاں کا روائتی رقص اپنا الگ ہی مقام رکھتا ہے۔
دلکش آبشاریںِ ،خوبصورت جھرنیں جہاں دل کو موہ لیتی ہیں وہیں علاقے کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی نہر ننھی وادی 
patan kalan canal

کو کاٹتی ہوئی دریائے کُنہار میں جا گرتی ہے۔
سطح سمندر سے تقریباََ سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقع گاوں پٹن کلاں پہنچنے کے لیے ایبٹ آباد سے مشرق کی جانب ٹھندیانی روڈ پر 40کلومیٹر کی پہاڑی مسافت طہ کرنے،یا اسلام آباد سے مظفر آباد آزاد کشمیر کی طرف جانے والی ہائی وے سے دریائے جہلم کوسر کر تے راڑہ پل کے ذریعے ایگزیٹ لینا پڑتا ہے۔دریائے جہلم پر واقع یہ پل آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ کی سرحد ہے۔

تاریخ:۔

تقسیم سے قبل اس علاقے میں ہندو بھی جو کہ قیام پاکستان کے بعد آہستہ آہستہ دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے۔
۲۰۰۵ء کے زلزلہ میں اس علاقے کو شدید نقصان پہنچا ۔اور اس کی بحالی کے اقامات گزشتہ برسوں تک جاری رہے۔
اسکے شمال مغرب میں معروف سیاحتی مقام ٹھندیانی اور ایبٹ آباد ہیں۔جبکہ جنوب مشرق میں آزاد کشمیر ہے۔جو کہ سرکل 
بکوٹ یا گلیات کا سب سے بڑا اور خوبصورت گاوں ہے۔
نمل

یونین کونسل پٹن کلان کے شمال میں یوسی ککمنگ،بوئی، مغرب میں ٹھنڈیانی یوسی کٹھوال،اور جنوب میں بیرن گلی اور 
نمبل ہیں۔یوسی کے موجودہ لوکل ممبر کونسل عبدالستار قریشی ، اور وائس چیئرمین محمد خورشید ہیں۔

آب ہوا:۔

سردیوں کے موسم میں اس علاقے میں جہاں برفباری اپنے دلکش مناظر پیش کرتی ہے وہیں درجہ حرارت سفرِ سے بھی نیچے گھر جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر لوگ عارضی طور پر شہری علاقوں میں رہائیش پذیر ہو جاتے ہیں جبکہ گرمیوں اور بہار کا موسم اس علاقے کے لیے انتہائی دلکش اور حسین ہوتا ہے۔حتہ کہ جون اور اگست کے مہینوں میں بھی زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 20 تک ہی جاتا ہے۔گویا یہاں کبھی گرمی آتی ہی نہیں۔

قدرتی حسن اور پر سکون فزا سے مالامال اس علاقے سے سیاحوں کی بڑی تعداد نا آشنا ہے۔
Share:

Friday, 6 July 2018

All you want to know about Ghazwa e hind - Idraak Documentary





غزوہ ہند نبی﷐کی پیش گوئِیوں میں ان غزوات موعودہ کی ذیل میں آتا ہے جن کی فضیلت کے متعلق نبی کریم﷐ سے متعدد احادیث مروی ہیں۔ ان احادیث نبویہ کی تعداد پانچ ہے جن کے راوی جلیل القدر صحابہ﷢ہیں۔ ان میں حضرت ابوہریرہ﷜ سے دو احادیث مروی ہیں۔ حضرت ثوبان اور حضرت ابی بن کعب ﷢ اور تبع تابعین میں سے حضرت صفوان بن عمرو﷬ ہیں ۔

فہرستحضرت ابوہریرہ ﷜سے مروی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ:

"میرے جگری دوست رسول اللہ ﷐نے مجھ سے بیان کیا کہ" اس امت میں سندھ و ہند کی طرف لشکروں کی روانگی ہوگی" اگر مجحے کسی ایسی مہم میں شرکت کا موقع ملا اور میں (اس میں شریک ہوکر) شہید ہو گیا تو ٹھیک، اگر (غازی بن کر) واپس لوٹ آیا تو میں ایک آزاد ابو ہریرہ ہوں، جسے اللہ تعالیِ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہوگا"

امام نسائ نے اسی حدیث کو اپنی دو کتابوں میں نقل کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ:

"نبی کریم﷐نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا ۔(آگے ابوہریرہ﷜ فرماتے ہیں) " اگر مجحے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال اس میں خرچ کردوں گا۔ اگر قتل ہو گیا تو میں افضل ترین شہداء میں شمار کیا جاوں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا۔"
Share:

Monday, 2 July 2018

Hunza Embassy Hotel, Karimabad, Hunza

Share:

Pearl Rotana Capital Centre Abu Dhabi UAE

Share:

Dangerous Land slide Flood in Neelum River

Share:

Finally Saudi Arabia Issued tourist Visa

Share:

Sunday, 1 July 2018

Hotels for Tourists to stay in all over Pakistan - Book Before Travel


If you have a plan to make tour with family, Friends, colleagues,class mates or make honeymoon with your loved one  and you are worried about where will you stay during tour. 



Because you have idea for a trip to a new place where you don't know any person you can't coordinate with Local people of that place.  Don't worry we are going to tell you what to do.
Some of people think they will book a hotel when they will at trip destination but they think wrong. It can be very wandering for you during tour. The romantic tour can b very bad for you.


Book a hotel in advance even you can choose your desired price desired type of room desired location of your hotel/room you will every thing see at your home and decide what is better what is best.





Book Now  Everywhere with 10% Discount

Book Hotel in Naraan Kaghan

Book Hotel in Thandiani Abbottabad

Book hotel in Murree

Book for Hunza

Book for Swat

Book for Everywhere in Pakistan

Book for Everywhere in world


Share:

About us

Pak Tour Productions is a site about videos and Article discription of Beautiful places of Pakistan and world, Stunning thing around you. It's also about content that have fun, funny videos, Amazing things of Pakistan,and All tourists places hotels and hotels rates and other news. Mostly we represent videos from beautiful and romantic places from Villages of Northern areas like Gilgit Baltistan, Abottabad , Thandiyani, naran kaghan,Swat Mala kand. We represent those villages that people have never seen,world has never seen but they are charming and romantic places to to visit, people can go there and make fun. on their honey moons tour trips and other.We show real beauty of pakistan. Pak tour productions

Ad here

Pak Tour Pro

Reality of Christmas || Is it belong to Romans? Than why people celebrate?

  The Christian community around the world celebrates December 25 as the birthday of Jesus. Thousands of Christians arrive in the West Bank ...

Contact Form

Name

Email *

Message *

Search This Blog

Ad here

Translate

Popular Posts